حضرت عیسی علیہ سلام کاواقعہ

حضرت عیسی علیہ سلام کاواقعہ

 حضرت عیسیٰؑ اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لے کر کسی سفر پر نکلے، راستے میں ایک جگہ رکے اور شاگرد سے پوچھا کہ :

 " تمہاری جیب میں کچھ ہے ...؟ "


شاگرد نے کہا :

 " میرے پاس دو درہم ہیں ...! "


حضرت عیسیؑ نے اپنی جیب سے ایک درہم نکال کر اسے دیا اور فرمایا :

 " یہ تین درہم ہوجائیں گے، قریب ہی آبادی ہے، تم وہاں سے تین درہم کی روٹیاں لے آئو ...! "


وہ گیا اور تین روٹیاں لیں، راستے میں آتے ہوئے سوچنے لگا کہ حضرت عیسیٰؑ نے تو ایک درہم دیا تھا اور دو درہم میرے تھے جبکہ روٹیاں تین ہیں، ان میں سے آدھی روٹیاں حضرت عیسیٰؑ کھائیں گے اور آدھی روٹیاں مجھے ملیں گی، لہٰذا بہتر ہے کہ میں ایک روٹی پہلے ہی کھال لوں، چنانچہ اس نے راستے میں ایک روٹی کھالی اور دو روٹیاں لے کر حضرت عیسیٰؑ کے پاس پہنچا ....!


آپ نے ایک روٹی کھالی اور اس سے پوچھا :

 " تین درہم کی کتنی روٹیاں ملی تھیں ...؟ "


اس نے کہا :

 " دو روٹیاں ملی تھیں، ایک آپ نے کھائی اور ایک میں نے کھائی ...! "


حضرت عیسیٰؑ وہاں سے روانہ ہوئے، راستے میں ایک دریا آیا، شاگرد نے حیران ہو کر پوچھا :

 " اے اللہ کے نبی ...!

ہم دریا عبور کیسے کریں گے جبکہ یہاں تو کوئی کشتی نظر نہیں آتی ...؟ "


حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا :

 " گھبراؤ مت، میں آگے چلوں گا تم میری عبا کا دامن پکڑ کر میرے پیچھے چلتے آو ،خدا نے چاہا تو ہم دریا پار کرلیں گے ....! "


چنانچہ حضرت عیسیٰؑ نے دریا میں قدم رکھا اور شاگرد نے بھی ان کا دامن تھام لیا، خدا کے اذن سے آپ نے دریا کو اس طرح پار کر لیا کہ آپ کے پاؤں بھی گیلے نہ ہوئے ...!


شاگرد نے یہ دیکھ کر کہا :

 " میری ہزاروں جانیں آپ پر قربان ...!

آپ جیسا صاحب اعجاز نبی تو پہلے مبعوث ہی نہیں ہوا ...! "


آپ نے فرمایا :

 " یہ معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا ...؟ "


اس نے کہا :

 " جی ہاں ...!

میرا دل نور سے بھر گیا ...! "


پھر آپ نے فرمایا :

 " اگر تمہارا دل نورانی ہوچکا ہے تو بتاؤ روٹیاں کتنی تھیں ...؟ "


اس نے کہا :

 " حضرت روٹیاں بس دو ہی تھیں ...! "


پھر آپ وہاں سے چلے، راستے میں ہرنوں کا ایک غول گزر رہا تھا، آپ نے ایک ہرن کو اشارہ کیا، وہ آپ کے پاس چلا آیا، آپ نے ذبح کر کے اس کا گوشت کھایا اور شاگرد کو بھی کھلایا۔

 جب دونوں گوشت کھا چکے تو حضرت عیسیٰؑ نے اس کی کھال پر ٹھوکر مار کر کہا :

 " اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا ...! "


ہرن زندہ ہو گیا اور چوکڑیاں بھرتا ہوا دوسرے ہرنوں سے جا ملا ...!


شاگرد یہ معجزہ دیکھ کر حیران ہو گیا او رکہنے لگا :

 " اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے آپ جیسا نبی اور معلم عنایت فرمایا ہے ...! "


حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا :

 " یہ معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا ...؟ "


شاگرد نے کہا :

 " اے اللہ کے نبی ...!

میرا ایمان پہلے سے دوگنا ہو چکا ہے ...! "


آپ نے فرمایا :

 " پھر بتاؤ کہ روٹیاں کتنی تھیں ...؟ "


شاگرد نے کہا :

 " حضرت روٹیاں دو ہی تھیں ...! "


دونوں راستہ چلتے گئے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک پہاڑی کے دامن میں سونے کی تین اینٹیں پڑی ہیں،


آپ نے فرمایا :

 " ایک اینٹ میری ہے اور ایک اینٹ تمہاری ہے اور تیسری اینٹ اس شخص کی ہے جس نے تیسری روٹی کھائی ....! "


یہ سن کر شاگرد شرمندگی سے بولا :

 " حضرت تیسری روٹی میں نے ہی کھائی تھی ...! "


حضرت عیسی نے اس لالچی شاگرد کو چھوڑ دیا اور فرمایا :

 " تینوں اینٹیں تم لے جاؤ ...! "


یہ کہہ کر حضرت عیسی وہاں سے روانہ ہوگئے اور لالچی شاگرد اینٹوں کے قریب بیٹھ کر سوچنے لگا کہ انہیں کیسے گھر لے جائے ...!


اسی دوران تین ڈاکو وہاں سے گزرے انہوں نے دیکھا، ایک شخص کے پاس سونے کی تین اینٹیں ہیں، انہوں نے اسے قتل کر دیا اور آپس میں کہنے لگے کہ اینٹیں تین ہیں اور ہم بھی تین ہیں، لہٰذا ہر شخص کے حصے میں ایک ایک اینٹ آتی ہے، اتفاق سے وہ بھوکے تھے، انہوں نے ایک ساتھی کو پیسے دئیے اور کہا کہ شہر قریب ہے تم وہاں سے روٹیاں لے آو، اس کےبعد ہم اپنا اپنا حصہ اٹھالیں گے، وہ شخص روٹیاں لینے گیا اور دل میں سوچنے لگا اگر میں روٹیوں میں زہر ملا دوں تو دونوں ساتھ مر جائیں گےاور تینوں اینٹیں میری ہو جائیں گی، ادھر اس کے دونوں ساتھوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اگر ہم اپنے اس ساتھی کو قتل کر دیں تو ہمارے میں حصہ میں سونے کی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ آئے گی ...!


جب ان کا تیسرا ساتھ زہر آلود روٹیاں لے کر آیا تو ان دونوں نے منصوبہ کے مطابق اس پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیا، پھر جب انہوں نے روٹی کھائی تو وہ دونوں بھی زہر کی وجہ سے مر گئے، واپسی پر حضرت عیسیٰؑ وہاں سے گزرے تو دیکھا کہ اینٹیں ویسی کی ویسی رکھی ہیں جبکہ ان کے پاس چار لاشیں بھی پڑی ہیں، آپ نے یہ دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھر ی اور فرمایا :

 " دنیا اپنی چاہنے والوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہے ...! 

 (واللہ تعالٰی اعلم)

 (انوار نعمانیہ ص۳۵۳)

Post a Comment

0 Comments