زرافے کا دنیا میں آنا ایک دلچسپ قصہ ہے۔

زرافے کا دنیا میں آنا ایک دلچسپ قصہ ہے۔



زرافے کا دنیا میں آنا ایک دلچسپ قصہ ہے۔

زرافے کا بچہ ماں کے پیٹ سے 10 فٹ کی بلندی سے
نیچے  گرتا ہے اور یہ بالعموم اپنی پیٹھ کے بل زمین پر آ لگتا ہے۔ سیکنڈوں کے اندر وہ پانسہ پلٹتا ہے اور اپنی ٹانگیں اپنے وجود کے نیچے سمیٹ لیتا ہے۔ اس پوزیشن سے وہ پہلی دفعہ دنیا کو دیکھتا ہے اور اپنی آنکھوں اور کانوں سے پیدائشی مائع کے آخری اجزا  جھلی کو اتارتا ہے۔ پھر مادہ زرافہ بڑی بے پرواہی سے اپنے بچے کو زندگی کی حقیقت سے روشناس کراتی ہے اور اسے پہلا سبق سکھاتی ہے۔

وہ ممکنہ حد تک گردن کو نیچا کر کے ایک بھرپور نظر اپنے بچے پر ڈالتی ہے۔ پھر براہِ راست بچے کے اوپر اپنی پوزیشن درست کرتی ہے۔ ایک منٹ کے لیے انتظار کرتی ہے اور اس کے بعد وہ جس حرکت کا مظاہرہ کرتی ہے، اسے بظاہر نا معقول ہی کہا جا سکتا ہے۔ نعوز باللہ
وہ اپنی لمبی ٹانگ کو باہر نکال کر گھماتی ہے اور بچے کو اس زور سے کک لگاتی ہے کہ بچہ ہوا میں قلابازی کھاتا سر کے بل دور جا گرتا ہے۔
جب تک  وہ اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوتا، تو تشدد کا یہ عمل بار بار دہرایا جاتا ہے۔ بچہ مسلسل ٹھوکروں سے تھک جاتا ہے، تو مادہ زرافہ اسے انگیخت دینے کے لیے اس کو دوبارہ کک لگاتی ہے۔ بالآخر بچہ اپنی کانپتی ٹانگوں پر پہلی دفعہ کھڑا ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
یوں ماں کا دودھ پیتا ھے

اس کے بعد مادہ زرافہ ایک اور حیرت انگیز حرکت کرتی ہے۔ وہ اس کے پاؤں کو ٹھوکر مارتی ہے اور اسے گرا دیتی ہے۔ وہ اسے یاد دہانی کرانا چاہتی ہے کہ اپنے پاؤں پر کیسے کھڑا ہوا جاتا ہے۔ جنگل کی دنیا میں زرافہ بچے کو گلے میں محفوظ رہنے کے لیے جس قدر جلد ممکن ہو، اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جانا چاہیے۔ شیر، چیتے، بھیڑئیے اور جنگلی کتے زرافہ بچے کی تاک میں ہوتے ہیں اور وہ اسے قابو کرنا چاہیں گے۔ اگر ماں بچے کو اس طرح جلد اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا نہ سکھائے، تو اس کے لیے اپنے ماحول میں زندہ رہنا مشکل ہو جائے۔

زندگی میں جو لوگ نامور ہوتے ہیں، ان میں قدرے مشترک یہ ہے کہ انہیں حالات کے ہاتھوں جو ٹھوکریں لگتی ہیں۔ مشکلیں اور رکاوٹیں درپیش ہوتی ہیں، ان سے وہ بددل نہیں ہوتے، بلکہ اس سے انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد ملتی ہے۔ جب بھی انہیں زمین پر گرایا جاتا ہے، وہ دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آپ ایسے لوگوں کو ناکام نہیں بنا سکتے، جو کسی ناکامی پر حوصلہ ہار کر بیٹھ نہیں جاتے۔ جب ایسے لوگوں کی زندگی کا اختتام ہوتا ہے، تب تک وہ دنیا میں اپنے حصے کا غیر معمولی کام انجام دے چکے ھوتے ھیں۔۔

Post a Comment

0 Comments